لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ . أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ
(تمام) بادشاہت خدا ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے بخشتا ہے ۔ یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے بےاولاد رکھتا ہے۔ وہ تو جاننے والا (اور) قدرت والا ہے ۔ سورة الشورى آیت نمبر 49 ، 50حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی اور انہیں حسن تربیت سے مالا مال کیا ، یہاں تک کہ وہ سن شعور تک پہنچیں، قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح آئیں گے جس طرح میرے ہاتھ کی یہ دو انگلیاں ۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت اور ساتھ والی انگلی کو ملا کر دکھایا۔رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کی دو لڑکیاں ہوں ، اور اس نے ان کی پرورش کی ہو ، یہ لڑکیاں اس کے لئے قیامت کے روز دوزخ سے آڑ ہونگیں۔ اس کے علاوہ متعدد احادیث مبارکہ میں لڑکیوں کی پرورش اور حسن تربیت پر نوید بخشش ہے اور ان کے فضائل بیان کیے گئے ہیں ۔ اسی لیے کہا گیا ہے ۔ بیٹی نعمت بھی اور رحمت بھی ، اولاد ہونے کی وجہ سے نعمت اور بخشش کا سبب ہونے کی وجہ رحمت ۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”جس بندے نے تین بیٹیوں یا تین بہنوں یا دو ہی بیٹیوں یا بہنوں کا بار اٹھایا اور ان کی اچھی تربیت کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور پھر ان کا نکاح بھی کر دیا تو اللہ تعالٰی کی طرف سے اس بندے کے لیے جنت کا فیصلہ ہے”۔
(ابوداؤد و ترمذی)
فائدہ:۔
آج بھی بہت سے علاقوں اور طبقوں میں لڑکی کو ایک بوجھ اور مصیبت سمجھا جاتا ہے اور اس کے پیدا ہونے پر گھر میں بجائے خوشی کے افسردگی اور غمی کی ایک فضا ہو جاتی ہے۔ یہ حالت تو آج ہے لیکن اسلام سے پہلے عربوں میں تو بے چاری لڑکی کی باعث ننگ و عار تصور کیا جاتا تھا اور اس کا حق یہ بھی نہیں سمجھا جاتا تھا کہ اس کی زندہ ہی رہنے دیا جائے۔ بہت سے شقی القلب خود اپنے ہاتھوں سے اپنی بچی کا گلا گھونٹ کر اس کا خاتمہ کردیتے تھے یا اس کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ ان کا یہ حال قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ”جب ان میں سے کسی کو لڑکی کے پیدا ہونے کی خبر سنائی جاتی ہے تو وہ دل مسوس کے رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے۔ ان کو منہ نہیں دکھانا چاہتا۔ اس برائی کی وجہ سے جس کی اسے خبر ملی ہے۔ سوچتا ہے کیا اس نومولود بچی کو ذلت کے ساتھ باقی رکھے یا اس کو کہیں لے جا کے مٹی میں دبا دے”۔ النحل۔59۔58)۔
یہ لڑکیوں کے بارے میں عربوں کا ظالمانہ رویہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور اسی فضا اور پس منظر کو پیش نظر رکھ کر بیٹیوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات امت کی رہنمائی کے لیے فرمائے۔ اگر احادیث کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بیٹی کا اتنا بڑا مقام ہے کہ کہیں اسے جہنم سے خلاصی کا ذریعہ قرار دیا ہے اور کہیں جنت کے دخول کا سبب قرار دیا ہے اور سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت کے حصول کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
اس حدیث مبارکہ میں بیٹیوں اور بہنوں کی حسن تربیت اور تہذیب کی تعلیم دی گئی ہے اور اس شخص کو جنت کی بشارت ہے جو بیٹیوں یا بہنوں کا کفیل ہو اور پھر ان کے بارے میں ان کے حقوق ادا کرے اور اللہ سے ڈرتا رہے۔ انہیں اچھی تربیت دے اور بہتر نشونما کا اہتمام کرے۔ عموماً لڑکیوں کی اچھی پرورش سے غفلت برتی جاتی ہے۔ اللہ تعالٰی کے نزدیک ایسے کفیل کا خواہ وہ بھائی ہوں یا باپ درجہ بہت بلند ہے جو اس سلسلے میں تکلیف اور مشقت اٹھائے کیونکہ نئی نسل کی ذمہ داری اور بھائیوں کے کندھوں پر ہوتی ہے ۔ بہتر تعلیم و تربیت سے معاشرہ میں خیر اور نیکی پھیلے گی اور اس کے کرنے والے کو جنت کی بشارت ہے۔ اس کے برعکس اس میں غفلت اور کوتاہی کرنے والے اللہ تعالٰی کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔
ایک حدیث میں اس طرح آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو رب ذوالجلال اس کے یہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں۔ اے گھر والو! تم پر سلامتی نازل ہو۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں، یہ کمزور جان ہے اور کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے (اس سے اشارہ عورت کی صنف نازک کی طرف ہے) جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا۔ قیامت تک اللہ تعالٰی کی مدد اس کے ساتھ شامل حال رہے گی۔ (بحوالہ طبرانی)۔
لڑکی کی پیدائش پر بھی اسی طرح خوشی منائیے جس طرح لڑکے کی پیدائش پر مناتے ہیں۔ لڑکی ہو یا لڑکا دونوں ہی اللہ تعالٰی کا عطیہ ہیں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ کے حق میں لڑکی اچھی ہے یا لڑکا، لڑکی کی پیدائش پر ناک بھوؤں چڑھانا اور دل شکستہ ہونا، اطاعت شعار مومن کے لیے کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ یہ ناشکری بھی ہے اور خدائے علیم و کریم کی توہین بھی۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو صحیح فہم نصیب فرمائے۔